تحریک طالبان افغانستان کے سینئر اراکین نے خضدار سے تعلق رکھنے والے محمد اقبال مینگل نامی شخص کے بطور صحافی بی بی سی کے دیئے گئے انٹرویو میں طالبان مجاہدین پر لگائی گئی الزمات کو مسترد کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ مذکورہ افراد بغیر کسی قانونی دستاویزات اور اجازت کے افغانستان میں داخل ہوکر غیر معیاری انداز میں مشکوک رپورٹنگ کررہے تھے، قندھار میں ان کی موجودگی کی اطلاع ملنے پر امارت اسلامی کی جانب سےانہیں فوراً افغانستان چھوڑ کرنکل جانے کا حکم دیا گیا تھا، جس پر وہ اپنے جوتے اور دیگر سامان چھوڑ کر خفیہ طریقے سے ہرات نکل گئے تھے وہاں بھی منع کرنے کے باوجود رپورٹنگ کے نام پر مشکوک سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے، بعد ازاں کابل چلے آئے جہاں انہیں تفتیش کے لئے ہراست میں لیا گیا ،اس دوران امارت اسلامی کی پالیسی کے مطابق انہیں کوئی تکلیف اور اذیت نہیں دی گئی بلکہ چھان پین کے بعد انہیں وارننگ دے کر افغانستان بدر کیا گیا، چونکہ مذکورہ دونوں افراد محمد اقبال مینگل اور شہزادہ سلطان اپنے مشکوک سرگرمیوں کے زریعے شہرت حاصل کرنا چاہتے تھے، اسی ہدف کی تکمیل کے لئے انہوں نے تحریک طالبان افغانستان کے خلاف پروپگنڈہ میں مصروف عمل بی بی سی کے سہولت کار بن کر امارت اسلامی افغانستان کو بدنام کرنے کے لئے طالبان مجاہدین پرمن گھڑت الزامات لگائے ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
0 Comments
Thanks for comment Admin will review and approved