رابعہ خضداری یا رابعہ بلخی قذداری تاریخ اور حقیقت اب بھی تحقیق طلب
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ رابعہ خضداری شاعرہ نے خضدار کی شناخت کو پوری دنیا میں دو بالا کیا ہے۔ غالباً 1990 میں خضدار ٹاؤن کمیٹی نے زندہ پیر روڈ کے نام کو بدل کر رابعہ خضداری روڈ رکھا۔
یہ روڈ گزگی چوک سے شروع ہو کر کم وبیش تین کلومیٹر خضدار شھر کے جنوب میں خضدار کینٹ کے قریب قومی شاہراھ RCD سے ملتا ہے۔
مگر اہل خضدار رابعہ خضداری کے بارے میں کتنا جانتا ہے۔ ٹاؤن کمیٹی یقیناً کسی کی تجویز پر روڈ کا نام تبدیل کرکے رابعہ خضداری رکھا ھوگا۔ تجویز کنندہ کتنا محترمہ کے بارے میں معلومات رکھتا ہے یہ ایک سوال ہے؟۔ لازم ہے کہ اہل خضدار کی معلومات کے لیے مستند تاریخ کا ھونا بے حد اہم ہے۔
یہ خاتون شاعرہ تاریخ کے کس زمانہ میں تھی۔ والدین کون تھے، مقبرہ وادی خضدار کے کس علاقہ میں ہے۔ شاعرہ کے مشہور اشعار کون کون سے ھیں۔ فارسی کے علاؤہ مقامی کونسی زبانوں میں شاعری کرتی تھی۔ اگر چہ کچھ اشعار فارسی اور براھوئی میں ھیں۔ ھم کس طرح تصدیق کر سکتے ہیں کہ ان اشعار کا تعلق محترمہ سے ھیں۔
محترم جناب نیاز مگسی صاحب ضلع جھل مگسی کے ایک بہت بڑے صحافی اور دانشور ہے۔ صاحب موصوف نے ایک سال قبل رابعہ خضداری کی سوانح حیات مختصر لکھی تھی۔ میں انتھائی ادب اور معذرت کے ساتھ ان کی خدمت میں معروضات پیش کرنا چاہوں گا نیاز مگسی صاحب کی دی ہوئی معلومات کسی قدر بھی رابعہ خضداری کی تاریخ سے مماثلت نہیں رکھتی۔جو سوانح حیات یا تاریخی حوالہ نیاز مگسی صاحب نے لکھا تھا وہ سوانح حیات رابعہ بلخی قذداری کی سوانح حیات سے قدرے مماثلت رکھتی ہے ۔
اب آ ئیے رابعہ بلخی قذداری کے بارے میں جانتے ہیں۔
رابعہ بلخی کے بارے میں دو روایات ھیں۔
ایک روایت!
رابعہ بلخی بنت کعب قذداری بلخی۔
رابعہ بلخی کی سب سے پہلے سوانح حیات زہیر الدین عافی نے لکھی ہے، تاھم مستند تاریخ پیدائش مبہم ھے۔ یہ سلطنت سنانید کے امیر نصر کا زمانہ ہے اس اعتبار سے رابعہ بلخی کا زمانہ 914 سے 943 ھے جو ایک ہزار سال قبل کا واقعہ ہے۔ بلخ افغانستان کے شہر مزار شریف سے 12 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اور قذدار جنوب افغانستان میں ایک گاؤں کا نام ہے۔ جہاں رابعہ قذداری کے والد امیر کعب رہتے تھے اس لئے کعب قذداری کے نام سے مشہور ہوئے، رابعہ پہلے قذداری اور بعد میں بلخی کے نام سے مشہور ھوئی۔
امیر کعب قذداری عرب سے ہجرت کر کے مشرقی فارس موجودہ جنوبی افغانستان میں آ باد ھوگئے تھے۔ امیر کعب جو بلخ کا گورنر اور سمانید دربار کا سردار تھا رابعہ اپنے والد کے نسبت رابعہ بلخی قذداری کے نام سے مشہور ھوئی تھی
امیر کعب بلخی قذداری کو اپنی بیٹی سے بے پناہ پیار تھا امیر کعب بیمار پڑ گئے اپنے بیٹے اور جانشیں حارث کو نصحیت کی کہ میری بیٹی کا بے حد خیال رکھنا رابعہ کو اس کے معیار کے مطابق رکھنا، امیر کعب وفات پاگئے حارث اپنے والد کی نصیحت کی روشنی میں اپنی بہن کا خیال رکھتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک دن حارث نے موسیقی کے پروگرام کا اہتمام کیا۔ محفل میں ایک ترک نسل غلام تھا۔ جس کا نام بتکاش تھا۔ بتکاش محفل میں موجود حاضرین کو شراب پیش کررہا تھا۔ رابعہ بلخی محل کی چھت سے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ اس منظر سے متاثر ہوکر اور بتکاش کی وجاہت کو اپنے اشعار میں بیان کیا۔ یہ اشعار رابعہ کے بھائی حارث پر آ شکار ہو گئے، حارث نے رابعہ کو محل کے حمام میں قید کر کے اس کی نس کاٹنے کا حکم دیا۔ رابعہ نے اپنے آخری اشعار حمام کی دیواروں پر لکھتی ھوئی دم توڑگئ اور تاریخ کے اوراق میں امر ھوگئ۔بتکاش کو ایک کنویں میں ڈال کر ماردیا گیا۔ جبکہ دوسری روایت کے مطابق بتکاش نے حارث کو قتل کر نے کے بعد کنویں میں چھلانگ لگا کر خود کشی کی۔
اب بھی رابعہ بلخی قذداری کی قبر بلخ میں ہے۔ لوگ اب بھی اس کی قبر پر جاتے ہیں اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں طالبان کے زمانے میں یہ سلسلہ کچھ عرصہ کے لیے معطل ھوگیا تھا اب پھر سے جاری ہے، رابعہ بلخی قذداری کے نام سے کابل میں ایک بہت بڑی یونیورسٹی ہے۔
دوسری روایت کے مطابق رابعہ بلخی قذداری اصل میں اس اصلی اور حقیقی کھانی کی مصنفہ ہے۔ رابعہ نے اس حقیقی کھانی پر ایک مکمل کتاب لکھی، اس کی کتاب کو پوری دنیا میں انتھائی پزیرائی ملی جو اس کی شہرت کی وجہ بنی۔
اب آ ئیے دیکھتے ہیں کہ رابعہ خضداری ان دو روایتوں کی روشنی میں کھا کھڑی ہے۔
رابعہ خضداری کے بارے میں ھم کتنا جانتے ہیں، کیا سر زمین خضدار کسی زمانے میں رابعہ خضداری جیسی شخصیت دیکھی ہے۔ ہمارا گزرا ھوا اسلاف اتنا بے مروت نہیں رہا ہے کہ وہ اپنی اتنی بڑی شخصیت کے بارے میں معلومات نہیں رکھتا ہو۔ محترمہ کھا سے ھے؟ کس قوم سے تعلق رکھتی ہے؟ موجودہ نسل کونسی ہے؟ مقبرہ کھا ہے؟ زمانہ کونسا ہے؟ فارسی کے علاؤہ مزید کتنی زبانوں میں شاعری کرتی تھی۔ فارسی کیوں محترمہ کا موضوع سخن تھا
۔UNESCO
رپورٹ کے مطابق براھوئی برصغیر کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک زبان ہے جو ہزاروں سالوں سے اس خطے میں بولی جاتی ہے۔ شاہ لطیف سندھ کا صوفی شاعر ہے، شاہ لطیف صاحب سندھی زبان کے علاؤہ ڈھائی سو سال قبل براھوئی میں ان کے اشعار ملتے ہیں۔تو یہ کیسے ناممکن ہے کہ مقامی زبان کے زیر تسلط رہ کر محترمہ براھوئی سے نا بلد رہی ھو۔
کیا خضدار کے لوگ محض ان کے نام کے ساتھ منسوب لفظ قذداری کی مماثلت خضداری کی وجہ سے اتنے بڑے مغالطہ کے شکار ھوگئے۔
اس بات پر شاید کچھ دانشور متفق ہوں کہ کوئی ایسا واقعہ تاریخ کے اوراق میں پیش آ یا ہو چائے یہ مغالطہ پر کیوں نہ ہو۔
تاریخ کی یہ غلط فہمی اہل خضدار کے علم ودانش کو دعوت فکر دیتی ہے کہ محترمہ کی مستند تاریخ پر سیر حاصل بحث مباحثہ کریں ضروری ہے کہ خضدار کی مستقبل کی نسل کے لئے ایک مستند تاریخ پر اپنی رائے قائم کریں۔
چونکہ اکیسویں صدی کی ایک تہائی ھم گزار چکے ہیں۔ باقی دنیا اپنی تاریخ کے ہر ابہام کو دور کرنے میں لگی ہے جو کہ کافی حد تک کامیاب ہوگئ ہے۔ اگر ھم خضدار کے اس تاریخی ابہام کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی، تو خضدار کی بائیسویں صدی کی نسل ہماری اس کمزوری کے لئے ہمیں کبھی معاف نہیں کریگی، جب بھی خضدار کا ذکر تاریخی حوالہ سے آئیگا لوگ کہیں گے فلاں فلاں سال میں خضدار علم کا صدر مقام تھا ، اتنے کالج اور یونیورسٹیاں تھیں پھر ہمارے اسلاف نے اتنے بڑے ابہام کو دور کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ سوچنے کا مقام ہے کہ جس شہر کی شرح تعلیم پینتیس35 سے چالیس 40 ھو اتنے بڑے ابہام پر کوئی سیمنار یا کانفرنس کا نہ ہونا ھم بحیثیت خضدار کے اہل علم اور شہری ھونے کے کیا جوابدہ اور کتنے زمہ دار ھونگے آ ج کا خضدار کا طالب علم کل کا خضدار کا دانشور ہے لہذا اس بابت ان کی فکر لازمی ہے۔
0 Comments
Thanks for comment Admin will review and approved